Wednesday, April 29, 2020

نماز قائم کرنے کے فضائل اور نہ کرنے کی وعیدیں :* قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے


*سُـــــورٙةبَــقَــرَۃ آیــت نـــمـــبــر03👇🏻*
  ╭·•●✿●•··•●✿●•·•●✿●•·╮                     ⚘بِسـْمِ الـلّٰـهِ الـرَّحـْمـٰنِ الرَّحـِیْم⚘  ╰·•●✿●•··•●✿●•·•●✿●•·╯*═════════════════**الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)**═════════════════**تــــرجــــمــــۂِ  کٙـــنـــزُالــــعِـــرفٙــان👇🏻**═════════════════* *وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ۔**═════════════════* *تٙـــفــــسِــــیـــر صِـــرٙاطُ الــــجِـــنٙـــان👇🏻**═════════════════**{اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ:وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}*یہاں سے لے کر ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا،قیامت کا قائم ہونا،اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔
 (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۲۰، تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۱۴، ملتقطاً)
 *ایمان اور غیب سے متعلق چند اہم باتیں :*
اس آیت میں ’’ایمان‘‘ اور’’ غیب‘‘ کا ذکر ہوا ہے اس لئے ان سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھیں !
*(1)…*’’ایمان‘‘ اسے کہتے ہیں کہ بندہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین (میں داخل) ہیں اور کسی ایک ضرورت ِدینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔
(بہارِ شریعت، ۱ / ۱۷۲)
*(2)…*’’ عمل‘‘ ایمان میں داخل نہیں ہوتے اسی لیے قرآن پاک میں ایمان کے ساتھ عمل کا جداگانہ ذکر کیا جاتا ہے جیسے اس آیت میں بھی ایمان کے بعدنماز و صدقہ کا ذکرعلیحدہ طور پر کیا گیا ہے۔
*(3)…*’’غیب ‘‘وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اورہم اپنے حواس جیسے دیکھنے، چھونے وغیرہ سے اور بدیہی طور پر عقل سے اسے معلوم نہ کرسکیں۔
*(4)…* غیب کی دو قسمیں ہیں :*(۱)* جس کے حاصل ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو۔یہ علم غیب ذاتی ہے اوراللہ  تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورجن آیات میں غیرُاللہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے وہاں یہی علمِ غیب مراد ہوتا ہے ۔*(۲)* جس کے حاصل ہونے پر دلیل موجود ہو جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ،گزشتہ انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور قوموں کے احوال نیز قیامت میں ہونے والے واقعات و غیرہ کا علم۔یہ سب اللہ  تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہیں اور جہاں بھی غیرُاللہکیلئے غیب کی معلومات کا ثبوت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوتا ہے۔
(تفسیر صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۲۶، ملخصاً)
*(5)…* اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کیلئے ایک ذرے کا علمِ غیب ماننا قطعی کفر ہے۔
*(6)…"* اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں جیسے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم پر ’’غیب ‘‘کے دروازے کھولتا ہے جیسا کہ خود قرآن و حدیث میں ہے۔ اس موضوع پرمزید کلام سورہ ٔ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 179 کی تفسیر میں مذکور ہے ۔
*{وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ:اور نماز قائم کرتے ہیں۔}*آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نمازپڑ ھی جائے۔نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُاللہ کے خیال سے فارغ کرکے ظاہروباطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔
(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۱۵-۱۱۷، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۸، ملتقطاً)
*نماز قائم کرنے کے فضائل اور نہ کرنے کی وعیدیں :*
            قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے 

شفاء کی دعائیں

*شفاء کی دعائیں*

 *شدید جسمانی تکلیف سے نجات کی دعا*
 *بِسْمِ اللهِ أَعُوْذُ بِعِزَّةِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ*
الله کے نام کے ساتھ، میں پناہ لیتا ہوں الله کی عزت کی اور اس کی قدرت کی، اس شر سے جو میں پاتا ہوں اور جس سے میں ڈرتا ہوں۔
♻ *ہر طرح کی بیماری سے شفاءکا دم*
 *أَسْأَلُ اللهُ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ أَنْ یَشْفِیَكَ*
میں عظمت والے الله سے دعا کرتا ہوں، جو عرش عظیم کا رب ہے، کہ وہ تمہیں شفا دے۔
♻ *بیماری میں کمی کی دعا*
 *اَللّٰهُمَّ انْقُصْ مِنَ الْمَرَضِ، وَلَا تَنْقُصْ مِنَ الْأَجْرِ*
اے الله! بیماری کو کم ک ردے اور اجر میں کمی نہ کرنا۔
♻ *عافیت کی دعا*
 *اَللّٰهُمَّ عَافِنِیْ فِی بَدَنِیْ اَللّٰهُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ اَللّٰهُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ*
اے الله! میرے جسم کو عافیت عطاکر، اے الله! میرے کان کو عافیت عطا کر، اے الله! میری نگاہ کو عافیت عطا کر، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
♻ *مریض کی عیادت کے وقت کی دعائیں*
 *لَا بَأْسَ طَهُوْرٌ اِنْ شَاءَ اللهُ*
کوئی فکر کی بات نہیں۔ ان شاء الله (یہ مرض گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے۔
 *بِاسْمِ اللهِ یُبْرِیْكَ وَمِنْ كُلِّ دَاءٍ یَشْفِیْكَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ وَشَرِّ كُلِّ ذِیْ عَیْنٍ*
الله کے نام کے ساتھ، وہ آپ کو تندرست کرے گا اور ہر بیماری سے آپ کو شفا دے گا اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ہر نظر بد والے کے شر سے۔
♻ *مصیبت زدہ اور بیمار کو دیکھ کر پڑھنے کی دعا:*
 *اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی كَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا*
تمام تعریفیں اسی ذات کے لیے ہیں جس نے مجھے (اس مصیبت سے) نجات دی جس کے ساتھ اس نے تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی اکثر مخلوق پر بہت فضیلت دی۔
 *اللہ رب العزت ہمیں روحانی اور جسمانی بیماریوں سے نجات عطا  فرمائے آمین ثم آمین*

سورج کے ساتھ کسی بڑی نشانی کا طلوع ہونا-ظہور امام مہدی اور قریبی علامات

    * سورج کے ساتھ کسی بڑی نشانی کا طلوع ہونا*

  ظہور مہدی سے قبل کی قریبی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب تک سورج کسی اہم ترین نشانی کے ساتھ طلوع نہیں ہوگا اس وقت تک حضرت مہدی کا ظہور نہیں ہوگا
  *951 -عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لَا يَخْرُجُ الْمَهْدِيُّ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ آيَةً»*
[الفتن لنعيم بن حماد ,1/332]
   یہ روایت اسی سند کے ساتھ مصنف عبدالرزاق میں بھی ہے مگر تھوڑا سا فرق ہے ......المصنف کے الفاظ یہ ہیں
  *لايخرج المهدي حتي تطلع مع الشمس آية...... (مصنف عبدالرزاق جلد ١١ ص ٣٧٣.حديث نمبر ٢٠٧٧٥)*
   یہ روایت اگرچہ مرفوع نہیں ہے لیکن حکماً مرفوع سے کم بھی نہیں ہے نیز علماء نے استنادی حیثیت سے اس روایت کو حسن کہا ہے. بہرحال الفتن لنعیم کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مہدی کا ظہور اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ کسی عظیم نشانی اور عبرت کے طور پر سورج کا طلوع نہ ہوجائے جبکہ المصنف کے الفاظ یہ کہہ رہے ہیں کہ طلوعِ آفتاب کے ساتھ الگ سے کوئی نشانی ہوگی. بہرحال جوبھی ہو. قدر مشترک یہ بات تو طے ہے کہ ظہور مہدی سے قبل طلوع آفتاب میں کوئی عظیم تغیر ہوگا. سورج تو نکلے گا مگر عام دنوں کی طرح نہیں. بلکہ ایسا خاص انداز ہوگا کہ اسے *آیۃٌ مِنْ آیاتِ اللہ* کہا جاسکے
   اب سوال یہ ہے کہ طلوعِ شمس کے ساتھ جو نشانی ظاہر ہوگی وہ کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں ایک اثر تو یہ ہے کہ سورج کے ساتھ ساتھ ایک چمکدار نورانی ستون بھی طلوع ہوگا جیسا کہ الفتن ہی میں ہے کہ
   *قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ بُخْتٍ: وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فِي رَمَضَانَ آيَةٌ فِي السَّمَاءِ كَعَمُودٍ سَاطِعٍ، وَفِي شَوَّالٍ الْبَلَاءُ، وَفِي ذِي الْقَعْدَةِ الْفَنَاءُ، وَفِي ذِي الْحِجَّةِ يُنْتَهَبُ الْحَاجُّ الْمُحْرِمُ،»*
[الفتن لنعيم بن حماد ,1/225]
  لیکن دوسرے متعدد آثار سے پتہ چلتا ہے کہ ظہور مہدی سے قبل والے رمضان المبارک میں سورج گرھن بھی ہوگا اور چاند گرھن بھی. سورج گرھن نصف رمضان کو ہوگا اور چاند گرھن پہلی رمضان کو...... چنانچہ سنن دارقطنی میں ہے کہ
  *1795 - حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْإِصْطَخْرِيُّ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ , ثنا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ , ثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ , عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ , قَالَ: «إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ , يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ , وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ , وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ»*
[سنن الدارقطني ,2/419]
 دارقطنی کا یہ اثر اگرچہ سند کے اعتبار سے بہت کمزور ہے مگر اوپر والے حسن درجہ کے اثر کے ساتھ اگر ملا لیا جائے تو کسی نہ کسی درجہ میں یہ اثر بھی قابل اعتبار بن جاتا ہے. تاہم بعض آثار میں یہ بھی ہے کہ سورج گرھن اور چاند گرھن نہیں بلکہ اس رمضان میں دونوں بار سورج ہی کو گہن لگے گا چنانچہ الفتن میں ہے..... *قَالَ: وَحُدِّثْتُ عَنْ شَرِيكٍ، أَنَّهُ قَالَ: «بَلَغَنِي أَنَّهُ قَبْلَ خُرُوجِ الْمَهْدِيِّ تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مَرَّتَيْنِ»*
  یہاں یہ ضرور خیال رکھنا چاھئے کہ جس رمضان المبارک میں بھی سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں ہوجائے اس رمضان کے بعد حضرت مہدی کا ظہور یقینی نہیں ہے بلکہ جب بھی ظہور مہدی ہونے والا ہوگا اس سے پہلے کے رمضان میں یہ دونوں گرھن ضرور ہونگے. دراصل ماضی میں بھی کئی بار ایسے واقعات پیش آچکے ہیں اور مختلف مدعیان مہدویت نے اسی کا سہارا لے کر اپنے آپ کو مہدی جتلانے کی کوشش کی ہے اس لیے ہمیں علامات و خاصے کا فرق ضرور سامنے رکھنا ہوگا تاکہ دھوکہ و فریب کو طشت از بام کرسکیں

الفتن لنعیم کی روایت ہے کہ

   *631 - حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ الْمَقْدِسِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَكُونُ صَوْتٌ فِي رَمَضَانَ، وَمَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَفِي ذِي الْقَعْدَةِ تَحَازُبُ الْقَبَائِلِ، وَعَامَئِذٍ يُنْتَهَبُ الْحَاجُّ، وَتَكُونُ مَلْحَمَةٌ عَظِيمَةٌ بِمِنًى، يَكْثُرُ فِيهَا الْقَتْلَى، وَتَسِيلُ فِيهَا الدِّمَاءُ، وَهُمْ عَلَى عَقَبَةِ الْجَمْرَةِ»*
[الفتن 

Sunday, April 26, 2020

سردی اور گرمی کی حقیقت



🖋 ⁦بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


*سردی اور گرمی کی حقیقت*

سائنسی طور پر سرد موسم کی کوئی بھی وجہ بیان کی جاتی ہو لیکن احادیثِ طیّبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سردی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ جہنّم کے سانس لینے کی وجہ سے ہوتی ہے ، چنانچہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابوہریرہؓ نبی کریمﷺکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں :
”قَالَتِ النَّارُ:رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأْذَنْ لِي أَتَنَفَّسْ، فَاَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ بَرْدٍ، أَوْ زَمْهَرِيرٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ، وَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ حَرٍّ أَوْ حَرُورٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ“
ترجمہ: جہنم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے میرے پروردگار!میرا بعض حصہ بعض کو کھارہا ہے،پس مجھے سانس لینے کی اِجازت مَرحمت فرمائیے ، اللہ تعالیٰ نے اُسے دو سانس لینے کی اِجازت دیدی،ایک سانس سردی میں اور دوسری گرمی میں،پس تم لوگ جو سردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو تو وہ جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے اور جو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ بھی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔(مسلم:617)
حدیثِ مذکور سے معلوم ہوا کہ سردی اور گرمی کی اصل وجہ جہنّم کا سانس لینا ہے ، اِسی کی وجہ سے سردی اور گرمی کا آنا جانا ہوتا ہے ، پس موسم کی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیئے کہ ہم لوگ موسمِ سرما میں سردی سے اور گرما میں گرمی سے بچنے کے لئےجس طرح مختلف اسباب اور وسائل اختیار کرتے ہیں اور ان اقدامات پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں،اسی طرح ہمیں چاہئے کہ آخرت میں شدت کی سردی اور گرمی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے جہنم سے بچنے کے اسباب اختیار کریں

عــورت اپنے شــوہر کے گھر سے خـرچ کرے تو کیسا ہے



•••┄┅┅❂❀•﷽•❀❂┅┅┈•••

        *📚حـــــــدیثِ رســـولﷺ🌴*

*✒عــورت اپنے شــوہر کے گھر سے خـرچ کرے تو کیسا ہے؟💰*

⚡ابو امامہ باہلی رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا: *”عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اور کھانا بھی نہیں؟ ۔ آپ نے فرمایا: ”یہ ہمارے مالوں میں سب سے افضل مال ہے“*

⚡ام المومنین عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: *”جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے صدقہ کرے تو اسے اس کا اجر ملتا ہے اور اتنا ہی اجر اس کے شوہر کو بھی، اور خزانچی کو بھی، اور ان میں کسی کا اجر دوسرے کے اجر کی وجہ سے کم نہیں کیا جاتا۔ شوہر کو اس کے کمانے کا اجر ملتا ہے اور عورت کو اس کے خرچ کرنے کا“۔*

*🖊وضاحت::*
🔷پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شوہر کی اجازت کے بیوی خرچ نہیں کر سکتی اور اگلی روایت میں اجازت کی قید نہیں٬ دونوں میں تطبیق اس طرح دی جائے گی کہ اجازت کی دو قسمیں ہیں اجازت قولی اور اجازت حالی ٬ *بعض دفعہ شوہر بغیر اجازت کے بیوی کے کچھ دے دینے پر راضی ہوتا ہے جیسے دیہات وغیرہ میں فقیروں کو عورتیں کچھ غلہ اور آٹا وغیرہ دے دیا کرتی ہیں اور شوہر اس پر ان کی کوئی گرفت نہیں کرتا-*

📚 #جامع_ترمزی::671-670(حسن)
🔍 #زکاة_صدقات_کا_بیان

کم یا ضَرورت سے زیادہ تیز روشنی میں مُطالَعہ کرنا



*کم یا ضَرورت سے زیادہ تیز روشنی میں مُطالَعہ کرنا*

نظر کی کمزوری کا ایک سبب کم یا ضَرورت سے زیادہ تیز روشنی یا غَلَط سَمت  (Direction)  سے آنے والی روشنی میں مُطَالَعہ کرنا بھی ہے کہ اس سے  بینائی متأثر ہوتی ہے لہٰذا مُطَالَعہ کرتے وقت اِس بات کا خیال رکھیں کہ روشنی اوپر سے یا اُلٹی طرف (Opposite Side) سے آئے کہ اِس طرح آنکھوں پر زور کم پڑے گا اور انہیں سہولت رہے گی۔بتی  (Light)  لگانے کا بھی یہی اُصول ہے کہ چھت میں لگائی جائے کہ اس سے خوب روشنی ہوتی ہے۔ پہلے  لوگ لالٹین  زَنجیر سے باندھ کر چھت سے نیچے کی طرف لٹکا دیا کرتے تھےاِس طرح کمرے میں چاروں طرف خوب روشنی ہوتی تھی جبکہ آج کل بتیاں (Lights)  چھت میں لگانے کے بجائے دیواروں پر لگانے کا رَواج ہے جس سے روشنی کم ہو جاتی ہے کیونکہ دیواریں روشنی جذب کر تی ہیں۔یوں ہی آج کل بعض لوگ زیبائش  (Decoration)  کے لیے بتیوں کے اوپر رَنگین پلاسٹک کور  لگا دیتے ہیں اس سے روشنی مزید  کم ہو جاتی ہے اور کم روشنی میں مُطَالَعہ کرنے سے آنکھوں پر وزن پڑتا ہے  اور تھکن ہو جاتی ہے جس کے نتیجےمیں نظر بھی کمزور  ہوتی چلی جاتی  ہے۔

*گرد و غُبار اور گاڑیوں کے دُھوئیں کے مُضِر اَثرات*

نظر کی کمزوری کا ایک باعِث گرد و غُبار اور گاڑیوں کا دُھواں  بھی ہے، اس کے مُضِر اَثرات سے بچنے کے لیے آنکھوں کو دھوتے رہنا چاہیے اور اس کا بہترین حل وقتاً فوقتاً وُضو کر لینا ہے۔

کسی یورپین ڈاکٹر نے ایک مَقالہ لکھا جس کا نام تھا *”آنکھ، پانی، صحت (Eye , Water , Health) “* اِس  مَقالے میں اُس نے  اِس بات پر زور دیا کہ *’’ اپنی آنکھوں کو دن میں کئی بار دھوتے رہو ورنہ خطرناک بیماریوں سے دو چار ہونا پڑے گا۔ آنکھوں کی ایک ایسی بیماری بھی ہے جس میں آنکھوں کی رَطُوبَتِ اَصلیہ  (یعنی اَصلی تَری) کم یا ختم ہو جاتی ہے اور بینائی کمزور ہوتے ہوتے بالآخر مریض اَندھا ہو جاتا ہے۔طِبی اُصُول کے مُطابِق اگر بھنوؤں کو وَقتاً فوقتاً تر کیا جاتا رہے تو اس مَرض سے تَحَفُّظ مل سکتا ہے۔“* اَلْحَمۡدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس یورپین ڈاکٹر کے بیان کردہ طِبی اُصُول سے ہم مسلمانوں کے مذہب کی سچائی اور عُمدگی مَزید واضِح ہوتی ہے کہ ہم روزانہ کئی بار وُضو کی صورت میں اپنی آنکھوں اور دِیگر اَعضاء کے تَحَفُّظ  کا  سامان کر لیتے ہیں ۔

*اپنی آنکھوں کا غَلَط اِستعمال*

★ *نظر کی کمزوری کے اَسباب میں سے ٹی وی، وی سی آر یا کمپیوٹر پر فلمیں ڈرامےدیکھنا،  بِلاضَرورت اپنی یا کسی اور کی  شرمگاہ کی طرف نظر کرنا اور گندگی (پیشاب وغیرہ) دیکھنا بھی ہے۔ان اَسباب سے بچنے کا بہترین حل آنکھوں کا ”قفلِ مدینہ“ لگانا ہے۔* ★

*نظر کمزور ہونے کا ظاہری سبب عُمر کی زیادتی*

نظر کمزور ہونے کا ایک ظاہری سبب عُمر کی زیادتی ہے ۔انسان جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو اس کے اَعضاء کمزور ہو جاتے  ہیں۔اَعضاء کی یہ کمزوری دَراصل  موت کا پیغام ہے۔ سیاہ بالوں کے بعد سفید بال ،  جسمانی طاقت کے بعد کمزوری اور سیدھی کمر کے بعد کمر کا جُھکاؤ ،  مَرض ،  آنکھوں اور  کانوں کا تَغَیُّر  (یعنی پہلے نظر اچّھی ہونا پھر کمزور پڑ جانا اور سننے کی طاقت کی دُرُستی کے بعد بہرے  پن کی آمد وغیرہ)  بھی موت کے قاصِد  (Messengers)  ہیں اور پیغام ديتے ہیں کہ زندگی کی مِیعاد ختم ہونے والی ہے۔

نکاح کے لئے بیوی - زنا کے لئے گرل فرینڈ



نکاح کے لئے بیوی - زنا کے لئے گرل فرینڈ
نکاح مباح جزبات کی تکمیل کے لئے - زنا ھوس کی تشکیل کے لئے
نکاح سنت رسول - زنا عمل شیطان
نکاح کرنے والا مسلمانوں میں سے - زنا کرنے والا شیطان میں سے
نکاح سے بقاء - زنا سے بربادی
نکاح سے حیاء -- زنا سے بےحیائی
نکاح پر مبارکیں - زنا پر لعنتیں
نکاح کرنے والا سنت کا پیرو - زنا کرنے والا کفار کا ساتھی
نکاح کرنے والا پر سکون - زنا کرنے والا خائف
نکاح صحت کا پیش خیمہ -- زنا کرنے والے ایڈز کا نشانہ
نکاح کرنے والا رحمت کے سائے میں -- زنا کرنے والا عذاب کی لپیٹ میں
نکاح سے عزتیں محفوظ -- زنا سے عصمتیں برباد
نکاح کا حکم -- زنا کے قریب بھی نہ جاو
نکاح سے عورت کی حفاظت -- زنا عورت کی ذلت
نکاح عورت کو ماں کے عالی مقام پر فائز کرنے کے لیے -- زنا عورت کو ذلت کے گڑھے میں گرانے کے لئے
نکاح کرنے والے کے لئے دعائیں ۔۔۔۔۔۔!!
برکت اور رحمت کی دعائیں - خیر پر جمع ھونے کی دعائیں
زنا کرنے والے کے لئے سزائیں ۔۔۔۔ !!
کنوارے کے لیے کوڑے اور شادی شدہ کو سنگسار ۔۔۔۔!!!!

۔یا اللہ۔۔۔۔!!!!

ھمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس
-- مبارک سنتِ نکاح ---
کو اپنانے والا بنا دے ۔۔۔
اور
زنا کی لعنت سے
ھماری حفاظت فرما --

آمین۔